وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تم (اس سے) نہیں ڈرتے۔
نوح علیہ السلام اور متکبر وڈیرے: نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بشیر ونذیر بنا کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا، آپ نے ان میں جا کر پیغام ربانی پہنچایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاری عبادت کا حق دار کوئی نہیں۔ تم اللہ کے سوا اس کے ساتھ دوسروں کو پوجتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ قوم کے بڑوں اور سرداروں نے کہا، یہ تو تم جیسا ہی ایک انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہو سکتا ہے؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے، تو اس کا اصل مقصد تم پر فضیلت اور برتری حاصل کرنا ہے۔ اور اگر واقعی اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعے سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے۔ تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا ناکہ کسی انسان کو، کہ وہ فرشتہ ہمیں آکر توحید کا مسئلہ سمجھاتا، اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ داداؤں کے زمانے سے تو یہ سنی ہی نہیں۔