قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ
یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی (١)
اَلْفَلْحُ کے لغوی معنی ہیں:چیرنا، اور پھاڑنا، کاشتکار کو بھی اسی لیے فَلَّاحٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، کامیاب کو بھی اسی وجہ سے مُفْلِح کہا جاتا ہے کیونکہ وہ صعوبتوں کو قطع کرتے ہوئے مطلوب تک پہنچ جاتا ہے، یا کامیابی کی راہیں اس کے لیے کھل جاتی ہیں، اس پر بند نہیں ہوتیں۔ شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے۔ اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے، اس کے ساتھ دنیا کی سعادت اور کامرانی بھی میسر آجائے تو سبحان اللہ! ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے گو دنیا والے اس کے برعکس دنیوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ یہ تصور اور معیار سرے سے غلط ہے۔ دنیوی اور اخروی کامیابی کے لیے جن صفات کا ہونا لازمی ہے وہ مندرجہ ذیل چھ صفات ہیں: ۱۔ پہلی صفت، ایمان لانا: شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرار دیا جائے اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آجائے تو سبحان اللہ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔