سورة الحج - آیت 75

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والوں کو اللہ ہی چھانٹ لیتا ہے، (١) بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا دیکھنے والا ہے (٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

منصب نبوت کا حق دار کون؟ یعنی اللہ تعالیٰ پیغام رسانی کے لیے فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے بھی خود اپنی حکمت اور صوابدید کے مطابق انتخاب کرتے ہیں جیسے جبرائیل علیہ السلام کو اپنی وحی کے لیے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اسی طرح لوگوں میں سے بھی، جنھیں چاہا، رسالت کے لیے چن لیا اور انھیں لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی پر مامور فرمایا، یہ سب اللہ کے بندے، منتخب اور چنیدہ تھے، لیکن کس لیے؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لیے؟ جس طرح بعض لوگوں نے انھیں اللہ کا شریک گردان لیا، نہیں بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے؟ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام: ۱۲۴) ’’اس موقعہ کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے۔‘‘