وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا (١) جناب باری تعالیٰ نے فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہوجائے گی فرمایا چار پرندوں کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں والا ہے۔
موت کے بعد دوبارہ زندگی کا مشاہدہ: حضرت ابراہیم نے کہا کہ مجھے یقین تو ہے مگر میں دل کا اطمینان چاہتا ہوں انبیاء کا غیب پر ایمان جس قدر پختہ ہوتا ہے اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ انھیں عین الیقین حاصل ہو۔ تاکہ دوسروں کو آنکھوں دیکھی حقیقت کی بنیاد پر ایمان بالغیب کی پرزور دعوت دے سکیں۔ اسی لیے اکثر انبیاء کو ملكوت السموات والارض کی سیر بھی کروادی جاتی ہے۔ اور کسی حد تک مافوق الفطرت اسباب پر مطلع بھی کردیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے دوران ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی۔ خواب میں اور نماز کسوف پڑھاتے ہوئے آپ کو جنت و دوزخ دکھائے گئے۔ قیامت کے دن انسان کی روح اللہ سے اتنی مانوس ہوگی کہ ایک پکار پر کیسے دوڑتی چلی آئے گی۔ حضرت ابراہیم موت و زندگی کا راز پانا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چار پرندوں سے یہ راز بتادیا۔(القرطبی ۳۷/۲۷۰)اور جان لو کہ اللہ غالب بھی اور حکمت والا بھی ۔ اس لیے حشر کی پیشی پر یقین لے آ ؤ۔