وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا پھر وہ شہید کردیئے گئے یا اپنی موت مر گئے (١) اللہ تعالیٰ انھیں بہترین رزق عطا فرمائے گا (٢) بیشک اللہ تعالیٰ روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے (٣)۔
بہترین رزق پانے والے لوگ: اہل ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خصوصی طور پر مہاجرین کا ذکر فرمایا، جنھوں نے اللہ اور اس کے دین کی خاطر اپنے گھر بار، اہل وعیال، دوست احباب، جائیداد اور وطن کو خیر آباد کہا، اس کے بعد خواہ جہاد کر کے شہید ہو جائیں یا طبعی موت سے وفات پا جائیں، ان کی ہجرت کا عمل ہی اتنا گرانقدر ہے، جیسے کہ ارشاد ہے: ﴿وَ مَنْ يَّخْرُجْ مِنۢ بَيْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَ قَعَ اَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ﴾ (النساء: ۱۰۰) ’’یعنی جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے، پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ طے ہو چکا ہے۔‘‘ ان پر اللہ کا فضل ہوگا، انھیں جنت کی روزیاں ملیں گی، پروردگار انھیں جنت میں پہنچائے گا، جہاں یہ بے حد خوش ہوں گے وہ اللہ کے مقربوں میں سے ہوں گے، ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی، اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو، اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو، اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، وہ بڑے حلم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے، ان سے درگزر فرماتا ہے، ان کی ہجرت کو قبول فرماتا ہے اور جو لوگ راہ الٰہی میں شہید ہوں، مہاجر ہوں یا نہ ہوں، وہ رب کے پاس روزی اور زندگی پاتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ﴾ (آل عمران: ۱۶۹) ’’اللہ کی راہ میں شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، روزیاں دئیے جاتے ہیں۔‘‘ اس کے بارے میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں، پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہے۔