تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
یہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے (١) ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے ان کی تائید کی (٢) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کے بعد والے اپنے پاس دلیلیں آ جانے کے بعد ہرگز آپس میں لڑائی بھڑائی نہ کرتے، لیکن ان لوگوں نے اختلاف کیا، ان میں سے بعض تو مومن ہوئے اور بعض کافر، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ آپس میں نہ لڑتے (٣) لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
پارہ کا تعارف: پارہ کا آغاز رسالت سے ہوتا ہے۔ رسول کس مقصد کے لیے آئے ان كے لوگوں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات تھے۔ نصف پارہ سورۂ بقرہ اور نصف سورۂ آل عمران میں اسی كا بیان ہے ۔ ان آیات میں یہ مطالبہ ہے كہ ہم رسولوں میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے رسولوں کی ایک لڑی ہے جو حضرت آدم سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہے۔ دوسرے پارے کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ یہ اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور آپ پیغمبروں میں سے ہیں۔ تیسرے پارہ کا آغاز بھی رسول كے ذكر سے ہوتا ہے۔ رسالت ایک مشن ہے اس میں ایک آئیڈیل شخصیت کا تعارف کروایا گیا ہے۔ رسول کا لفظ: ہمیں بتاتا ہے کہ کوئی ہے جو بھیجنے والا ہے پیغام دینے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بندے اور رب سے ملانے کا رستہ ہے ۔ رسول براہ راست راہنمائی پاتے ہیں۔ نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ حق کو چھپاتے ہیں، جیسے انسان کوبجلی کی روشنی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانوں کو روشنی اللہ کے کلام سے ملتی ہے جو رسول لے کر آئے ہیں انسان کی بنیادی ضروریات کے مقابلے میں شعوری ضروریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا۔رسولوں کے پاس وحی کے ذریعے سے پیغامات آتے ہیں جو ہمہ گیر ہوتے ہیں خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ۔ انسانی بھلائی کے لیے رسولوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی انھوں نے کائنات کی اصل حقیقت کو سمجھایا۔ مقصد زندگی سمجھانے آئے، یہودیوں نے انسانوں كو جو یہ تصور دیا کہ ’’انسان پہلے بندر تھا بہت ہی شرمناک تصور ہے‘‘۔رسولوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو عزت دی۔ اللہ نے بتایا کہ میں نے تمہیں لباس دیا جو تمہیں ڈھانپتا ہے شیطان اتروانے پر لگا ہوا ہے۔ دوبارہ زندگی کا پیغام رسولوں نے دیا کہ آخرت میں ہر عمل کا جواب دینا ہوگا۔ دنیا میں اس کی وجہ سے محبت شفقت، دل کا سکون، امن اور خوبصورتی ملتی ہے۔ رسول نفس کو پاک کرنے، معاشروں کو پاک کرنے، امن و سلامتی قائم کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت: انبیاء اور رُسل کی سب سے بڑی فضیلت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں رسالت و نبوت عطا فرمائی اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے کسی نبی پر فضیلت نہ دو۔‘‘ (بخاری: ۶۵۱۷) نیز فرمایا کہ ’’کسی نبی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو۔‘‘ (مسلم: ۲۳۷۳، بخاری: ۳۴۱۴)رہ گئی ان كی باہمی فضیلتیں تو اللہ تعالیٰ نے کسی ایک رسول کو ایک فضیلت اور کسی دوسرے کو دوسری فضیلت سے نوازا۔ مثلاً: حضرت ابراہیم کی یکسوئی۔ (۲) یوسف کا صبر، یعقوب کا صبر، حضرت عیسیٰ کو معجزات، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین اخلاق ملا، دین کو مکمل کیا، آخری نبی، آخری کتاب، آخری اُمت، آپ کا تذکرہ اذان اور نماز میں، درود بھیجا، مقام محمود عطا کیا، معراج پر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھ میں حضرت یوسف جیسا صبر نہیں فرمایاکہ مجھے کسی پر فضیلت نہ دو۔‘‘ (بخاری: ۳۳۵۳) جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں: (۱) نماز پڑھنے کے لیے تمام زمین پاک كر دی گئی ہے ۔ (۲)مال غنیمت حلال کیا گیا۔ (۳) دنیا میں ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (۴) شفاعت عطا کی گئی قیامت کے دن آدم کی نسل کا سردار ہوں گا ۔ سب سے پہلے میری قبر کھولی جائے گی اور میں شفاعت کروں گا۔ (۵) تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود ہوں گا۔ (بخاری: ۴۳۸) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات: (۱)کوڑھی کو تندرست کرتے ۔ (۲) آواز دینے پر مردے قبروں سے اٹھ کر بیٹھ جاتے۔ (۳) مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں روح پھونکتے تو وہ اللہ کے حکم سے اڑ جاتے۔ (۴) مادرزاد اندھے کو ٹھیک کردیتے۔ (۵) بتا دیتے کہ تم کیا کھا کر آئے ہو اور کیا چھوڑ کر آئے ہو۔ آسمان پر زندہ اٹھائے گئے اسی عمر میں واپس آئیں گے۔ مشیت الٰہی اور لوگوں میں لڑائی جھگڑے: اللہ کی مشیت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادہ دی جائے پھر دیکھا جائے کہ کون اس کو درست استعمال کرتا ہے اور کون غلط؟ جو لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہی آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو انسان کو یہ قوت ہی نہ دیتا پھر سب کے سب مومن ہوتے۔ لیکن ایسا ایمان مجبوری کا ہوتا اختیاری نہ ہوتا۔ جبکہ مشیت الٰہی یہ ہے کہ لوگ اپنے اختیار سے ایمان لائیں یا کفر کریں۔ دین میں جبر نہیں ہے: اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فضیلت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی اُمت کو بھی دوسری اُمتوں پر فضیلت عطا کی۔ (لیکچر سے ماخوذ)