سورة الأنبياء - آیت 105

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (١) (ہی) ہونگے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

زبور سے مراد: یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پندو نصیحت جیسا کہ ترجمہ میں ہے یا پھر زبور سے مراد گزشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے تو لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے۔ اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے ہی زمین کے اقتدار کے مالک ہوں گے جس کی تائید اس ارشاد باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ ﴿وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ﴾ (الزمر: ۷۴) ’’اور اہل جنت کہیں گے کہ ’’ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزا وار ہے۔ جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ اور ہمیں زمین کا وراث بنا دیا ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں وہیں رہتے ہیں۔ ‘‘ رہی اس دنیا کی وراثت تو اس کے متعلق فرمایا: ﴿اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (الاعراف: ۱۲۸) زمین اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ گویا اس دنیا میں زمین کی وراثت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ نیک لوگوں کو ہی ملے بلکہ بدکردار، فاسق و فاجر بھی اس پر قابض ہو سکتے ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور ہے کہ جو ایمان دار ہے اپنے دعویٰ ایمان میں اور صالح اعمال کرنے میں سچے اور مخلص ہیں حق و باطل میں معرکہ میں اللہ انھیں ہی کامیاب کرتا ہے۔ خلافت ارضی کے لیے شرائط: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ﴾ (آل عمران: ۱۳۹) اگر تم (اپنے قول و اعمال میں) مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘ اور ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ (النور: ۵۵) ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کیے ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا۔‘‘ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان جب تک اللہ کے نیک بندے رہے وہ دنیا میں بااقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے اس ’’وعدہ الٰہی‘‘ کے مطابق زمین کا اقتدار انھی کے پاس ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ۔ اور جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہو گئے تو اقتدار سے بھی محروم کر دیے گئے۔ اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ اور وہ صالحیت، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا، اور اس کے حدود اور ضابطوں پر کاربند رہنا ہے۔