إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ
جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو کیا ہیں؟ (١)۔
یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ہوش مندی کا تقاضا تھا کہ جب انھوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں کو بے جان اور ساکت و صامت بتوں کے سامنے سجدہ زیر دیکھا تو فوراً دل میں سوچنے لگے کہ ان بے جان پتھروں کے سامنے، جو نہ حرکت کرتے ہیں، نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں سجدہ کرنا تو انسانیت كی سراسر توہین و تذلیل ہے۔ قوم کی اس انسانیت سوز حرکت پر وہ مدتوں دل ہی دل میں کڑھتے اور نفرت کرتے رہے بالآخر انھوں نے اپنی طبیعت کے تقاضا سے مجبور ہو کر اپنے باپ اور اپنی قوم سے یہ سوال کر ہی دیا کہ مجھے بھی تو کچھ بتاؤ کہ جن بے جان مورتیوں کے سامنے بیٹھ کر تم ان کی عبادت کرتے ہو اس کا فائدہ کیا ہے؟