سورة طه - آیت 132

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اپنے گھرانے کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ (١) ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

گھر والوں کو نماز کا حکم: اس خطاب میں ساری اُمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہے یعنی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تنگی ہوتی، تو اپنے گھر کے سب لوگوں کو فرماتے: اے میرے گھر والو، نمازیں پڑھو، نمازیں قائم رکھو، تمام انبیاء علیہم السلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنی ہر گھبراہٹ اور ہر کام کے لیے نماز شروع کر دیتے۔ (ابوداؤد) ایک حدیث قدسی میں وارد ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرا سینہ، امیری اور بے پرواہی سے پُر کر دوں گا۔ تیری فقیری اور حاجت کو دور کر دوں گا اور اگر تو نے یہ نہ کیا تو میں تیرا دل اشغال سے بھر دوں گا اور تیری فقیری بند ہی نہ کردوں گا۔ (ترمذی: ۲۴۶۶) اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے لیے چھٹکارا کی صورت پیدا کردیتا ہے اور بے سان و گمان جگہ سے روزی پہنچاتا ہے تمام جنات و انسان صرف عبادت الٰہی کے لیے پیداکیے گئے ہیں۔ رازق اور زبردست قوتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حضرت ہشام کے والد صاحب جب امراء کے مکانوں پر جاتے اور ان کا ٹھاٹھ دیکھتے تو واپس اپنے مکان پر آکر اسی آیت کی تلاوت فرماتے اور کہتے اے میرے کنبے والو! نماز کی حفاظت کرو۔ نماز کی پابندی کرو، اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ ہم تم سے کچھ رزق نہیں مانگتے حالانکہ تم سب میرے بندے اور غلام ہو۔ بلکہ وہ تو ہم خود تمھیں دیتے ہیں تمھارا کام بس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری میں لگے رہو۔ جو رزق تمھارے مقدرمیں ہے وہ تمھیں مل کر ہی رہے گا۔ پرہیز گاری کا انجام: یعنی جو شخص تقویٰ اختیار کرے گا؟ اس کا انجام دنیا میں بھی بہتر ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں بہتری کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرمایا کہ جب کوئی متقی مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دیتے ہیں نیز ایسی جگہ سے رزق مہیا کرتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ اور انجام کار پرہیزگاروں ہی کے لیے بہتر ہے۔