سورة طه - آیت 94

قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں (١) کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ (٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حضرت ہارون علیہ السلام اگرچہ عمر میں بڑے تھے تاہم منصب کے لحاظ سے چھوٹے تھے علاوہ ازیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام جلالی طبیعت کے مالک اور سخت جوش غضب میں تھے۔ لہٰذا اسی غضب سے مغلوب ہو کر سیدنا ہارون کے سر اور داڑھی کے بالوں کو پکڑا تھا۔ ہارون بڑے تحمل سے کہنے لگے اے میرے ماں جائے بھائی، ایسا اس لیے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیادہ محبت اور رحم آئے ورنہ باپ الگ الگ نہ تھے، دونوں سگے بھائی تھے۔ بات یہ تھی کہ جب یہ لوگ شرک میں مبتلا ہوئے تو میں نے انھیں پوری سختی سے روکا تھا لیکن چونکہ اکثریت شرک میں مبتلا تھی لہٰذا انھوں نے مجھے دبا دیا اور جان سے مار ڈالنے کے در پے ہو گئے تھے اور ان میں سے اکثر میرے دشمن بن گئے تھے، اب اگر میں اس معاملہ میں زیادہ سختی کرتا تو ان میں خانہ جنگی چھڑ سکتی تھی۔ لہٰذا مجھے بھی آپ ہی کا انتظا رتھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیوں کو ڈھیل دے دو اور مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘ (مسلم: ۲۶۰) ایک دوسری حدیث میں کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موچھیں کاٹتے اور داڑھی چھوڑ دینے کا حکم دیا۔‘‘ (مسلم: ۵۳/ ۲۵۹)