مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ
اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب (١) کو نکال کھڑا کریں گے۔
انسان کا زمین سے دائمی تعلق: اس آیت میں انسان پروارد ہونے والی تین کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے اور ان تینوں کا تعلق زمین سے ہے۔ اللہ نے انسان کی ابتدا اسی سے کی اور حضرت آدم علیہ السلام کو اسی سے پیدا کیا۔ انسان کی تمام ضروریات اسی سے متعلق کر دیں پیدایش سے لے کر موت تک یہ ایک مرحلہ ہوا۔ دوسرا مرحلہ موت سے قیامت تک ہے۔ اس مرحلے میں انسان اسی زمین میں دفن ہوتا ہے۔ اور اکثر لوگوں کی میت مٹی بن کر مٹی میں ہی رَل مل جاتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی۔ (مسند احمد: ۳/ ۴۱۲) اور بعض دوسرے لوگ بھی ایسے ہو سکتے ہیں جن کے اجسام ان قبروں میں محفوظ ہوں اور تیسر امرحلہ بعث بعد الموت ہے۔ یعنی جب اللہ اس مٹی سے ملے ہوئے ذرات کو جمع کرکے سب لوگوں کو زندہ کرکے اپنے حضور حاضر کرے گا، گویا پہلے دوسرا مراحل تیسرے مرحلہ کے لیے دلیل کا کام دیتے ہیں۔