قَالَ فَمَن رَّبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ
فرعون نے پوچھا کہ اے موسٰی! تم دونوں کا رب کون ہے؟
فرعون کا پہلا سوال کہ تمھارا رب کون ہے؟ چونکہ فرعون ناہنجار و جود باری تعالیٰ کا منکر تھا۔ وہ خود خدائی کا دعویدار تھا۔ اگرچہ وہ اس بات کا قائل تھا کہ زمین و آسمان اور موجودات کو الہ نے پیدا کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سیاسی او رقانونی حاکمیت کا وہ منکر تھا۔ لہٰذا اس نے فوراً یہ سوال کر دیا کہ ’’تمھارا پرودگار ہے کون؟‘‘ چونکہ فرعون اللہ تعالیٰ کی توحید و ربوبیت کا قائل تھا اس لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اس کا جواب بھی ایسا دیا جو ربوبیت سے تعلق رکھتا تھا اور وہ جواب یہ ہے کہ میرا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو ایک خاص ساخت عطا کی مثلاً جو شکل و صورت انسان کے مناسب حال تھی اسے دے دی، جو جانوروں کے مطابق تھے وہ جانوروں کو عطا فرمائی۔ ’’راہ سجھائی‘‘ کا مطلب ہر مخلوق اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بودوباش کا طریقہ بھی اُسے سمجھا دیا اور اس کی جبلت میں رکھ دیا مچھلی پیدا کی تو اسے تیرنا بھی سکھا دیا۔ پرندے پیدا کیے تو انھیں اُڑنا بھی سکھا دیا۔ بچہ پیدا کیا تو اسے فوراً ماں کے پستان سے چمٹنا اور دودھ پینے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔