سورة طه - آیت 11

فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی (١) اے موسٰی۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں تیرا رب ہوں لہٰذا جوتیاں اُتار دے۔ حاکم کی حدیث میں ہے یا تو اس لیے حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی ہیں یا اس لیے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی۔ جیسے کہ کعبے جانے والے لوگ جوتیاں اُتار کر جاتے ہیں یا اس لیے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں غرض اس کی اور بھی وجوہ بیان کی گئی ہیں طویٰ اس وادی کا نام تھا۔ (تفسیر طبری) ﴿اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ ﴾ (النازعات: ۱۶) (جب کے انھیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا) دنیا میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے۔ اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں۔ پھر حکم ہوا اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دھر کر سن۔ میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں یہی پہلا فریضہ ہے۔ تو صرف میری ہی عبادت کیے جانا۔ عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی۔ تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہو جائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لَذِکْرٰی کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے۔ اس لیے کہ یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تجھے یاد آجاؤں نماز پڑھ یعنی اگر کسی وقت غفلت، ذہول یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی، میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے: ’’جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے، اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے۔ اس کے سوا اور کفارہ نہیں۔‘‘ (بخاری: ۵۹۷)