تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى
اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔
’’ استواء علی العرش‘‘ کے معنی استقرار کے ہیں۔ اسلاف علماء نے بلاکیف و بلاتشبیہ اس کے یہی معنی مراد لیے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر بلند اور مستقر ہے، لیکن کس طرح اور کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کر سکتے نہ کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے جو اللہ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا اس نے بھی کفر کیا، اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لیے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص سے ثابت ہیں ان پر بلا تاویل اور بلاکیف و تشبیہ ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر) اور عرش الٰہی سے متعلق جو کچھ نصوص سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پائے ہیں جنھیں خاص فرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں اور بالخصوص قیامت کے دن آٹھ فرشتے اسے اُٹھائے ہوئے ہوں گے۔ او ریہ عرش سب آسمانوں کے اوپر ہے۔