سورة مريم - آیت 67

أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حالانکہ وہ کچھ بھی نہ تھا (١)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ ہم نے بغیر نمونے کے انسان کو پیدا کر دیا۔ تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لیے کیونکر مشکل ہوگا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے۔ یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے؟ اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔ یعنی ہم دوبارہ انھی کو نہیں بلکہ ان کے شیاطین کو بھی زندہ کریں گے جنھوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ہم ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے۔ ایک حدیث قدسی میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ابن آدم میری تکذیب کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں۔ ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے۔ حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا، اس کا میری تکذیب کرنا تو یہ ہے کہ وہ میری بابت یہ کہتا ہے کہ اللہ ہرگز مجھے اس طرح دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا حالانکہ میرے لیے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے۔ (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ)اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے حالانکہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میں نے کسی کو جنا، نہ خود جنا گیا ہوں اور میرا کوئی ہمسر نہیں۔ (بخاری: ۴۹۷۴) پھر ہم ہر فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو الگ کر لیں گے اور ان کو اکٹھا کرکے جہنم میں پھینک دیں گے کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلہ میں سزا و عقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں۔