قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا
اس نے جواب دیا کہ اے ابراہیم! کیا تو ہمارے معبودوں سے روگردانی کر رہا ہے۔ سن اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھروں سے مار ڈالوں گا، جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ (١)۔
باپ کا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو گھر سے نکال دینا: باپ آذر جو درباری مہنت بت تراش اور بت فروش تھا۔ بھلا بیٹے کے کہنے پر اپنی معاش اور اپنے منصب کو کیسے چھوڑ سکتا تھا بیٹے کی اس پند و نصیحت کے جواب میں کہنے لگا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ اور بد عقیدہ ہو چکے ہو۔ ایسی بے دین اولاد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں تمھیں سنگسار کر دوں گا اور بہتر یہ ہے کہ تم فوراً میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ اور میرے گھر سے نکل جاؤ۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے گھر سے نکل جانے میں ہی اپنی اور اپنے دین کی عافیت سمجھی۔ مگر اپنے باپ کے حق میں اتنے خیر خواہ اور نرم دل تھے کہ جاتی دفعہ کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے اس کے لیے امن و سلامتی کی دعا کی اور وعدہ کیا کہ میں تمھارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ اور کرتے بھی رہے۔ پھر آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا کہ مشرک کی کسی صورت بخشش نہیں ہو سکتی تو آپ ایسی دعا کرنے سے رُک گئے۔