قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا
اس نے جواب دیا کہ میں تو اللہ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہوں۔
فرشتے نے جواب دیا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں اگر میرے متعلق کوئی بُرا خیال آیا ہے تو اُسے دل و دماغ سے نکال دو۔ میں آدمی نہیں بلکہ تمھارے پروردگار کا فرستادہ فرشتہ ہوں اور اس لیے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ (یہاں جبرائیل نے لڑکا عطا کرنے کی نسبت جو اپنی طرف کی ہے تو اس سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ فرشتے اللہ کے شریک ہیں یا اللہ نے انھیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جیسا کہ مشرکین یا مشرکین مکہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ میں تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں یعنی اس کام پر مامور ہوا ہوں) اب سیدہ مریم کا پہلا خوف تو دور ہوگیا کہ یہ کوئی بدکار آدمی نہیں بلکہ اللہ کا فرستادہ فرشتہ ہے۔ اب حیرت اس بات پر ہوئی کہ لڑکا کیسے ہو سکتا ہے؟ جب تک کسی مرد سے صحبت نہ ہو خواہ یہ بالجبر کی صورت میں ہو یا بالرضا کی صورت میں؟ اور یہ دونوں باتیں یہاں مفقود تھیں۔