قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
آپ کہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (١) (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، (٢) تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت (٣) میں کسی کو شریک نہ کرے۔
سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم : کفار کا یہ اعتراض اور اس کا جواب متعدد بار پہلے بھی گزر چکا ہے کہ میں بھی تمھاری ہی طرح ایک انسان ہوں کھاتا ہوں، پیتا ہوں نکاح اور شادیاں کرتا ہوں البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی الٰہی آتی ہے۔ دیکھو میں کوئی غیب دان تو نہیں۔ تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا، اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمھارے سامنے بیان کر دیے۔ اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گزشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں تمھارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ، شرک چھوڑ دو میری دعوت یہی ہے۔ جو بھی تم میں سے اللہ سے ملنے کا شوق رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ ملاقات خوش گوار رہے، اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے رہنا چاہیے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ شریعت کے مطابق ہوں۔ خالصتاً اللہ کی عبادت کریں، خلوص کے ساتھ اور سنت کے مطابق، ان دو رکنوں کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ شرک کے بارے میں احادیث: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک دن رونے لگے ہم نے پوچھا حضرت آپ کیوں رو رہے ہیں، فرمانے لگے ایک حدیث یاد آگئی اس نے رُلا دیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں سنو وہ سورج، چاند، پتھر، بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی تو روزہ چھوڑ دیا۔ (مسند احمد: ۴/ ۱۲۴، ابن ماجہ: ۳۴۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں میرے ساتھ جو بھی کسی کو شریک کرے، میں اپنا حصہ بھی اسی کو دے دیتا ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عمل میں میرے ساتھ دوسرے کو ملالے، میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیرکے لیے ہے۔ (ابن ماجہ: ۴۲۰۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونے کا اعتراف: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو اس میں کچھ کمی بیشی کر دی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! نماز کے متعلق کیا کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیوں کیا بات ہے؟ ’’لوگوں نے کہا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی رکعت پڑھی ہیں۔‘‘ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف منہ کیا (سہو کے) دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا ’’اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمھیں بتا دیتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمھاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں تو جب میں بھولوں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو اپنے ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرے۔ (بخاری: ۴۰۱) ام المومنین سیدہ اُم سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی ایک بشر ہی ہوں اور تم آپس میں جھگڑتے ہوئے۔ میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا کہ تم میں سے ایک فریق دلائل دینے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہوتا ہے۔ اور میں اس کے دلائل سن کر اسی کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں اب اگر میں کسی فریق کو اس کے بھائی کا کچھ حق دلا دوں، تو یاد رکھو میں اسے آگ کا ٹکڑا دلا رہا ہوں۔ (بخاری: ۳۳۱۲) الحمد للہ۔