ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا
وہ پھر ایک سفر کے سامان میں لگا (١)۔
دو بلند گھاٹیوں سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل تھے، ان کے درمیان کھائی تھی جس سے یا جوج وماجوج ادھر آبادی میں آجاتے، اودھم مچاتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے۔ کھیت باغات بھی تباہ کرتے، بال بچوں کو بھی ہلاک کرتے اور سخت فساد برپا کرتے۔ یہ یاجوج و ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گاکہ اے آدم! آپ لبیک وسعدیک کے ساتھ جواب دیں گے، حکم ہوگا، آگ کا حصہ الگ کر، پوچھیں کتنا حصہ، حکم ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں، یہی وہ وقت ہوگا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا۔ (بخاری: ۳۳۴۸، مسلم: ۲۲۲) پھر حضور علیہ السلام نے فرمایا تم میں دو اُمتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انھیں کثرت کو پہنچا دیتی ہیں یعنی یاجوج ماجوج۔ (ترمذی: ۳۱۶۹) انھی سے جہنم بھرے گی۔ ذوالقرنین اور اس کے ساتھی ان لوگوں کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور وہ ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔