وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے (١) اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑیں گے (٢)
یہ قیامت کی ہولناکیوں او ربڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دُھنی ہوئی روئی کی طرح ادھر ادھر اڑتے پھریں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ﴾ (القارعۃ: ۵) اور پہاڑ ایسے ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون۔ سورہ طور ۱۰۹، سورہ نمل۸۸ اور سورہ طٰہٰ ۱۰۵، ۱۰۷ میں بھی یہی مضمون مذکور ہے۔ جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہو جائیں گی تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ اسی لیے آگے فرمایا: ’’تو زمین کو صاف اور کھلی ہوئی دیکھے گا۔‘‘ (ہم جمع کریں گے) یعنی اولین و آخرین چھوٹے بڑے، کافرو مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہہ میں نہ پڑا رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔