هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا
یہیں سے (ثابت ہے) کہ اختیارات (١) اللہ برحق کے لئے ہیں وہ ثواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت (٢) ہی بہتر ہے۔
وَلَایۃٌ کے معنی نصر ت کے ہیں یعنی اس مقام پر ہر مومن و کافر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کی مدد کرنے پر اور اس کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ پھر اس موقع پر بڑے بڑے سرکش اور جبار بھی اظہار ایمان پر مجبور ہو جاتے ہیں، گو اس وقت کا ایمان نافع اور مقبول نہیں جس طرح قرآن میں فرعون کی بابت فرمایا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: ﴿اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْا اِسْرَآءِيْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (یونس: ۹۰) ’’میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں او رمیں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ دوسرے کفار کی بابت ارشاد فرمایا: ﴿فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ﴾ (المومن: ۸۴) ’’جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا، ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ان کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اعمال صرف اللہ کے لیے ہی ہوں ان کا ثواب بہت ہوتا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی وہ بہتر ہیں۔