سورة البقرة - آیت 211

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بنی اسرائیل سے پوچھو تو کہ ہم نے انہیں کس قدر روشن نشانیاں عطا فرمائیں (١) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے پاس پہنچ جانے کے بعد بدل ڈالے (وہ جان لے) (٢) کہ اللہ تعالیٰ بھی سخت عذابوں والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے پوچھ لیجئے کہ ہم نے حضرت موسیٰ کو کتنی ہی روشن نشانیاں اور معجزات عطا کیے تھے۔ مثلاً عصا ئے موسیٰ اور ید بیضا۔ پھر سمندر سے راستہ بنایا، پتھر سےبارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ كیا، من و سلویٰ نازل فرمایا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حضرت موسیٰ کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انھوں نے احکام الٰہی سے اعراض کیا۔ اور پھر جب ان لوگوں نے اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو اللہ نے انھیں بری طرح سزا دی جیسے مینڈکوں کاآنا۔ سسری کا پڑنا۔ طوفان بادوباراں وغیرہ۔ بنی اسرائیل سے سوال اس لیے کیا گیا کہ یہ اُمت مسلمانوں کے قریب زمانہ میں موجود تھی اور اب بھی موجود ہے جیسے ماضی جاننے کے لیے آثار قدیمہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل ایک جیتی جاگتی قوم ہے۔ اس لیے اس سے بہتر سبق امت مسلمہ کو کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم نے بھی اللہ کے انعامات کی قدر نہ کی تو تمہارا بھی یہی حشر ہوسکتا ہے۔