سورة الكهف - آیت 23

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا میں اسے کل کروں گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ان شاء اللہ کہنے کی ہدایت: اللہ تعالیٰ اپنے نبی خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کسی کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کروں گا۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا کہ میں کل اس کا جواب دوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ کل جبرائیل امین آئے تو میں ان سے پوچھ کر بتا دوں گا یا اللہ تعالیٰ خود بذریعہ وحی مطلع کر دیں گے۔ مگر کل تک ان دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ ہوئی۔ پھر چند دن بعد جبرائیل وحی لے کر آئے اس سورت کی آیا ت کے ساتھ ہی آپ کے لیے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا۔ اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو الا ماشاء اللہ ضرور کہا کریں(یعنی اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک کام کر دوں گا) اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ کہ ہر کام اللہ کی مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ کل تک فلاں کام فلاں وقت کر سکے گا یا نہیں۔ کسی کو غیب کا علم حاصل نہیں اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کر سکے۔ اللہ کا ذکر کرو۔ یعنی جب ان شاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت سے ہے اور ذکر الٰہی یاد کا ذریعہ ہے۔ اللہ میری راہنمائی کرے گا سے مراد یہ ہے کہ جس کام کا میں عزم کر رہا ہوں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر اور مفید کام کی طرف میری راہنمائی فرما دے اس لیے توکل اللہ پر ہی کرنا ہے۔