سورة الكهف - آیت 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے (١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی صرف یہی ایک بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے، بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدایش او راس کا نظام شمس و قمر، اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بے شمار نشانیاں، کیا کم تعجب انگیز ہیں۔ تفسیر طبری میں ہے۔ (۱) کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے۔ (۲) بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں۔ (تفسیر طبری) کہف پہاڑ کی غار کو کہتے ہیں وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے۔ رقیم، مرقوم کے معنی میں ہے یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی جس پر اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ جب اصحاب کہف ایک دم معاشرے سے غائب ہو گئے او رتلاش بسیار کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا تو سرکاری دستاویزات میں ان مغرور مجرموں کے نام و پتے درج کر لیے گئے جو مدتوں حکومت کے ریکارڈ میں رہے اور بعض کے نزدیک یہ نام اس وقت ریکارڈ کیے گئے تھے جب ان کا چرچا عام ہوا۔ او ریہ نوجوان دوبارہ اس غار میں داخل ہو گئے تو لوگوں نے ان کے نام و پتے لکھ کر غار کے باہر کتبہ لگا دیا اور ان کے مختصر حالات بھی درج کر دیے گئے۔