سورة الإسراء - آیت 96

قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کا گواہ ہونا کافی ہے (١) وہ اپنے بندوں سے خوب آگاہ اور بخوبی دیکھنے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

صداقت رسالت پر اللہ کی گواہی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی سچائی پر اور گواہ کیوں ڈھونڈوں؟ اللہ کی گواہی کا فی ہے میں اگر اس کی پاک ذات پر کوئی تہمت باندھتا ہوں تو وہ آپ مجھ سے انتقام لے گا، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْل۔ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ۔ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِيْنَ﴾ (الحاقۃ: ۴۲۔ ۴۷) ’’اگر یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم زبردستی کوئی بات ہمارے سر چپکا دیتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن اُڑا دیتے اور ہمیں اس سے کوئی نہ روک سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی بندے کا حال اللہ سے مخفی نہیں وہ انعام و احسان ہدایت اور لطف کے قابل لوگوں اور گمراہی اور بدبختی کے قابل لوگوں کو بخوبی جانتا ہے۔