وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
جب وہ لوٹ کرجاتا ہے تو زمین پر فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے۔
دو چہروں والا انسان باتوں سے لوگوں کو راضی کرنے اور عملی طور پر فساد پھیلانے کے کام کرتا ہے ۔ الفاظ خدا پرستی کے ہیں اور اعمال خود پرستی کے ہیں۔ ایسا انسان نسلوں اور فصلوں کو تباہ کرتا ہے ۔ ہر اچھی گفتگو کرنے والا بھروسے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت میں بتایا ہے۔ زمین میں فساد کیسے پھیلتا ہے۔ غلط پراپیگنڈے سے، اشتہاروں سے جس سے فائدہ چیز بنانے اور بیچنے والوں کو جبكہ نقصان خریدنے والوں کا ہوتا ہے۔ اپنی قیادت کے لیے پوری قوم کو بے راہ رو بنادیا جاتا ہے۔ تخریب پیدا کرنے والی سرگرمیاں کرنا، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں كے ذریعے ایسے مفاد پرستانہ پروپیگنڈے كیے جاتے ہیں كہ جس سے لوگوں کے ذہن الٹی طرف لگ جائیں، حیا کو ختم کردیا جائے۔ کھیتی کی بربادی کیسے؟ کھادوں کا استعمال جن سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ کینسر ہوجاتا ہے ایگروکیمیکل سپرے سے فصل برباد ہوجاتی ہے اور جانور مرجاتے ہیں۔ نسل انسانی کی بربادی؟ جیسے حیا کو ختم کیا بڑے مقصد سے توجہ ہٹ گئی، ذہنی سانچہ خراب کردیا جائے پھر جو بھی کام چاہے لے لیا جائے، والدین کو اولاد نے خدمت کرنے والی مشین سمجھ لیا ہے ۔ فیملی پلاننگ مائیں بچوں کو بوجھ سمجھتی ہیں۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا؟ نوح علیہ السلام کی قوم کو سیلاب میں ڈبو دیا۔ قوم ہود پر آسمان سے پتھر آگئے۔ قوم لوط علیہ السلام پر پتھر بھی برسائے اور زمین سے پانی بھی نکل آیا۔ اللہ تعالیٰ نافرمانوں كو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ زلزلے، سیلاب آجاتے ہیں پھر کسی کی آہ وزاری کام نہیں آتی۔ قارون کو مٹادیا، مومن کی ذمہ داری ہے کہ پوری زمین کے بگاڑ درست کرے۔