سورة الإسراء - آیت 85

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے (١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شان نزول: روح سے مراد وحی الٰہی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے: ’’اس پیغمبر سے پوچھو کہ روح کیا چیز ہے‘‘ کوئی کہنے لگا اچھا (ٹھیک ہے، یہ سوال کرنا چاہیے) اور کسی نے کہا مت پوچھو، کوئی کہنے لگا تمھیں اس سے کیا، کوئی کہنے لگا شاید وہ کوئی ایسا جواب دیں جو تمھارے خلاف ہو اس لیے جانے دو نہ پوچھو۔ آخر وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لکڑی سے ٹیک لگا کر ٹھہر گئے میں سمجھ گیا کہ وحی اتر رہی ہے میں خاموش کھڑا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ (بخاری: ۴۷۲۱) روح وہ لطیف چیز ہے جو کسی کو نظر تو نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے۔ اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے ایک بار آپ سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری اس کا مطلب یہ ہے کہ تمھارا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے۔ اور یہ روح جس کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے۔ بس اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشیوں نے یہودیوں سے درخواست کی کہ کوئی مشکل سوال بتاؤ کہ ہم ان سے پوچھیں۔ انھوں نے یہ سوال سمجھایا جس کے جواب میں یہ آیت اتری تو یہ سرکش کہنے لگے ہمیں بڑا علم ہے۔ تورات ہمیں ملتی ہے اور جس کے پاس تورات ہو اُسے بہت سی بھلائی مل گئی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا﴾ (الکہف: ۱۰۹) ’’کہہ دیجیے کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لیے سمندر سیاہی بن جائیں اور اس سے کلمات الٰہی لکھنے شروع کیے جائیں تو یہ روشنائی سب ختم ہو جائے گی اور اللہ کے کلمات باقی رہ جائیں گے تو پھر تم اس کی مدد میں ایسے ہی اور لاؤ۔‘‘ عکرمہ رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کے اس سوال پر اس آیت کا اترنا اور ان کے اس مکروہ قول پر دوسری آیت کا اترنا بیان فرمایا ہے یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں اور روئے زمین کے سمندروں کی روشنائی اور ان کے ساتھ ایسے ہی اور سمندر بھی ہوں تب بھی اللہ کے کلمات پورے نہیں ہو سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ تورات کا علم جو جہنم سے بچانے والا ہے بڑی چیز ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلہ میں بہت تھوڑی چیز ہے۔ (تفسیر طبری)