وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا (١) اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔
ماں باپ سے حسن سلوک کی وجوہ: (۱) جب والدین بوڑھے ہوں اور کما بھی نہ سکتے ہوں۔ ان کی اولاد ان سے مالی تعاون کرے۔ (۲) والدین کی محبت تو اپنی اولاد سے بدستور قائم رہتی ہے مگر اولاد کی محبت آگے اپنی اولاد کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس لیے والدین سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے حالانکہ اس عمر میں والدین کو زیادہ توجہ، محبت و الفت کی ضرورت ہوتی ہے۔(۳) والدین کا مزاج بڑھاپے میں طبعی طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے۔ اور اولاد انھیں برداشت کرنے کے بجائے اُلٹی سیدھی باتیں سنانے لگتی ہے۔ انھی وجوہ پر اولاد کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ ان سے بات ادب، محبت و الفت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر کرو جس سے انھیں کسی قسم کی ذہنی یا روحانی اذیت نہ پہنچے۔ والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث: ۱۔ آپ علیہ السلام نے منبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وجہ دریافت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل( علیہ السلام ) آئے اور کہا اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی ناک خاک میں آلود ہو جس کے پاس تیرا ذکر ہو اور اس نے درود بھی نہ پڑھا ہو کہیے آمین۔ چنانچہ میں نے آمین کہی، پھر فرمایا اس شخص کی ناک بھی اللہ تعالیٰ خاک آلود کرے جس کی زندگی میں ماہِ رمضان آیا اور چلا گیا اور اس کی بخشش نہ ہوئی آمین کہیے، چنانچہ میں نے اس پر بھی آمین کہی، پھر فرمایا: اللہ اسے بھی برباد کرے۔ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے ایک کو پالیا اور پھر بھی ان کی خدمت کر کے جنت میں نہ پہنچ سکا کہیے آمین میں نے کہا آمین۔ (ترمذی: ۳۵۴۵) ۲۔ ایک انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں چار سلوک (۱) ان کے جنازے کی نماز(۲) ان کے لیے دعا و استغفار۔ (۳) ان کے وعدوں کو پورا کرنا (۴)ان کے دوستوں کی عزت کرنا، اور وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہو، یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی تو ان سے کر سکتا ہے۔ (ابوداؤد: ۵۱۴۶)