سورة الإسراء - آیت 1

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پاک ہے (١) وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے (٢) کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ (٣) تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے (٤) رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں (٥) یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یہ سورت مکی ہے۔ اسے سورہ کو اسراء بھی کہتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف اور سورہ مریم سب سے پہلے سب سے بہتر اور بڑی فضیلت والی ہیں۔ (بخاری: ۴۷۳۹) واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل: یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو ’’اسراء‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی کو ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ واقعہ معراج کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہے کم نہیں۔ جمہور اُمت کا یہ قول ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا محض روحانی یا کشفی نہ تھا جس کے دلائل یہ ہیں (۱) واقعہ کا آغاز (سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ) جیسے پُر زور الفاظ سے کیا جا رہا ہے۔ او ریہ لفظ عموماً حیرت و استعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لیے آتا ہے۔ مطلب یہ کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا ہی محال ہو لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اس لیے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں وہ تو لفظ کُن سے پلک جھپکتے ہی جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لیے ہیں اللہ تعالیٰ تو ان یا پابندیوں، کوتاہیوں سے پاک ہے۔ ۲۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق صرف جسم پر یا روح پر نہیں ہوتا بلکہ دونوں پر ہوتا ہے۔ ۳۔ اگر کسی واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہو جائے تو خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں سورۃ القمر میں ہے۔ یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔ اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقع سنایا تو کفار نے اس کا مضحکہ اُڑایا کہ بیت المقدس کا چالیس دن کا سفر ہے اور یہ آمد و رفت اسی دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہو گیا۔ سرگزشت معراج: اللہ تعالیٰ اپنی ذات پاک کی عظمت و عزت اور اپنی پاکیزگی اور قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ شریف کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجد تک لے گیا جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے زمانے سے انبیاء کرام کا مرکز رہا۔ اسی لیے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں ان کی امامت کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین۔ اس مسجد کے اردگر ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل، پھول، قدرتی نہریں، انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے یہ علاقہ ممتاز ہے۔ اس سیر کا مقصد ہے کہ ہم اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبردست نشانیاں اور عجائبات دکھائیں۔ جن میں سے ایک نشانی اور معجزہ یہ سفر بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہیٰ پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں، مومنوں، کافروں، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور دیکھ رہا ہے، ہر ایک کو وہی دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔