ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے (١) یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے (٢)
تبلیغ کے داعی کو تین ہدایات حکمت، عمدہ نصیحت، نرم اور متفاہمانہ لہجہ۔ اس آیت میں دین کی تبلیغ کے متعلق تین ہدایات دی گئی ہیں۔ (۱)پہلی ہدایت حکمت ہے۔ یعنی دعوت اس وقت دی جائے جب مخاطب کے دل میں سننے کی خواہش ہو اور وہ سننے پر تیار ہو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد اللہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اچھے وعظ سے مراد جس میں ڈر اور دھمکی بھی ہو کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں اور اللہ کے عذابوں سے بچاؤ طلب کریں۔ عمدہ نصیحت سے مراد جو بات آپ کہیں میٹھے اور دل نشین انداز میں کہیں۔ عقلی دلیل کے ساتھ، ترغیب و ترہیب اور جذبات کو اپیل کرنے والی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائیں۔ تاکہ مخاطب یہ سمجھے کہ آپ فی الواقع اس کے ہمدرد ہیں تیسری بات اگر آپس میں دلائل سے بات کرنے کی نوبت آئے تو اس کی بات غور سے سنیں اور اپنی بات شائستہ زبان میں پیش کریں اور اس کا مقصد افہام و تفہیم ہو ایک دوسرے کو مات دینا مقصود نہ ہو۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تین ہدایات حکمت، موعظۃ الحسنہ اور جدال بالاحسن فرمائی تو یہ سب الگ الگ تین قسم کے لوگوں کے لیے ہیں۔ یعنی مخالفین میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ (۱)ایک وہ جو اہل عقل خرد ہوتے ہیں جو معقول دلائل سے ہی قائل ہو جاتے ہیں (۲) دوسرے وہ جو زیادہ ذہین تو نہیں ہوتے مگر عقل سلیم رکھتے ہیں ضدی اور ہٹ دھرم نہیں ہوتے انھیں پندو نصیحت کے انداز سے سمجھائیے یہی چیز ان کے لیے زیادہ مؤثر ہوگی۔ (۳) تیسرے وہ لوگ جو کج بحث، ضدی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ دلیل سے بات کریں انھیں صرف حقائق سے آگاہ کرنا آپ کا ذمہ ہے۔ منوا کے چھوڑنا آپ کے ذمہ نہیں اور جب دیکھیں کہ مخاطب ضد پر اُتر آیا ہے توپھر اس سے اعراض کیجیے اور ایسے لوگوں پر توجہ، اپنا وقت اور محنت صرف کیجیے جو حق کے متلاشی ہوں۔