إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
بیشک ابراہیم پیشوا (١) اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔
امت کے معنی ہیں جس کی اقتدا کی جائے، قانت کہتے ہیں اطاعت گزار، فرمانبردار کو اور حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آجانے والا۔ مشرکین مکہ چونکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار بتاتے تھے اسی نسبت سے یہاں ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف بیان فرمائے۔ ان کی سب سے پہلی اور نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ باطل کے مقابلہ میں اکیلے ہی ڈٹ گئے ایک طرف کفر و شرک کی علمبردار پوری قوم اور دوسری طرف توحید کا علمبردار فرد واحد تھا۔ اس نے اتنا کام کر دکھایا جتنا ایک پوری اُمت یا ادارے کا ہوتا ہے۔ یہ تو ان کے عزم و ثبات کا حال تھا اور عقائد و اعمال کا یہ حال تھا کہ انھوں نے ہر طرح کے سہارے چھوڑ کر ایک اللہ ہی کی طرف رجوع کر لیا تھا۔ اور فرمانبرداری کا یہ حال تھا کہ وہ اسی کے ہو کر رہ گئے تھے۔ اور اس راہ میں انھیں اپنی جان تک کی پرواہ نہ رہی تھی اور شرک تو انھوں نے کبھی نبوت سے پہلے بھی نہ کیا تھا بعدمیں کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اب تم خود ہی سوچ لو کہ ان کے پیروکار ہونے کے دعوے میں کس قدر حق بجانب ہو۔