سورة البقرة - آیت 195

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو (١) اور سلوک و احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیّدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی جب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگار بہت ہوگئے تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی میں ایک دوسرے سے کہا کہ بلاشبہ ہمارے مال خرچ ہوگئے اب اللہ نے اسلام کو عزت دی اور اس کے مددگاروں کو زیادہ کردیا ہے تو اب اگر ہم اپنے اموال سنبھال رکھیں اور جو کچھ خرچ ہوچکا اس کی تلافی شروع کردیں(توکوئی بات نہیں) اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔(ترمذی: ۲۹۷۲) ہلاکت سے مراد اموال کی نگرانی میں ان کی اصلاح میں مشغول ہو كر جہاد کو چھوڑ دینا۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا: دین کو پھیلانے اور اس كی ترویج و اشاعت کے لیے مال قربان کرنا، جہاد كے لیے مالی قربانیاں دینا۔ یہ اللہ كی راہ میں خرچ كرنا ہے۔مالی قربانی سب سے مشکل کام ہے۔ اس لیے اللہ نے کہا ہے کہ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ دین کے غلبہ کے لیے،اور دین كو بے یارومددگار نہیں چھوڑنا۔ اسلحہ کی قوت۔ افرادی قوت۔ ذرائع آمدورفت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمزور چاہت سے دین نہیں پھیلتا اس لیے مال۔ وقت۔ صلاحیت سب کچھ اللہ کی راہ میں لگانا ہے دین کے لیے جو کچھ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ جس نے غزوہ کے لیے سازوسامان دیا گویا وہ خود جہاد میں شریک ہوا۔(بخاری: ۲۸۴۳) احسان کرو: اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے تھوڑا اپنے لیے رکھو زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اللہ كے ہاں سے ایک کے مقابلے میں ۷۰۰گنا ملتا ہے، احسان کرنا نیکی ہے بخل کرکے انسان اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ دل کی تنگی آخرت کی ہلاکت ہے۔ مال انسانی ضروریات کے لیے ہے خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں۔ جبرائیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ’’احسان کیا ہے۔ فرمایا تم عبادت ایسے کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یا تم اسے دیکھ رہے ہو کہ خوف اور اُمید کے بین بین ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۰، مسلم: ۹)