وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ
جب مشرکین اپنے شریکوں کو دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! یہی وہ ہمارے شریک ہیں جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے، پس وہ انھیں جواب دیں گے کہ تم بالکل ہی جھوٹے ہو (٢)
یعنی جنہیں حاجت روااورمشکل کشایافریادرس یا دستگیر وغیرہ سمجھ کرپکاراجاتاتھا وہ مشرکوں یااپنے پکارنے والوں کواس لحاظ سے جھوٹا نہیں کہیں گے کہ وہ انہیں پکارانہیں کرتے تھے بلکہ اس لحاظ سے کہیں گے کہ ہم توخوداللہ کے فرمانبرداربندے بن کر زندگی گزارتے رہے۔ ہم نے کبھی ایسادعویٰ بھی نہیں کیاتھاکہ ہم لوگوں کی حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ اور اگر تم لوگ ایساکرتے بھی رہے ہو تو ہمیں اس کی بالکل خبرتک نہ تھی، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ﴾ (یونس: ۲۹) ’’ہمارے اورتمہارے درمیان اللہ بطورگواہ کافی ہے کہ ہم اس بات سے بے خبرتھے کہ تم ہماری عبادت کرتے تھے۔‘‘ اور سورۂ احقاف ۵،۶ میں سورۂ مریم ۸۱،۸۲میں۔سورۂ العنبکوت ۲۵ میں اور سورہ الکہف ۵۲ میں بھی یہی مضمون مذکور ہے۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتاہے۔کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کے لیے کبھی نہیں کہاتھااس لیے تم ہی جھوٹے ہو۔ یہ شرکاء اگر شجرو حجر ہونگے تواللہ انہیں قوت گویائی عطافرمائے گا،جنات وشیاطین ہونگے توکوئی اشکال ہی نہیں ہے۔اوراگراللہ کے نیک بندے ہونگے جس طرح کہ متعدد صلحاء اوراولیاء اللہ کولوگ مددکے لیے پکارتے ہیں۔ان کے نام کی نذرونیازدیتے ہیں ان کی قبروں پرجاکران کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح کسی معبودکی خوف ورجاکے جذبات کے ساتھ کی جاتی ہے،تواللہ تعالیٰ ان کومیدان محشرمیں ہی بری فرمادے گااوران کی عبادت کرنے والوں کوجہنم میں ڈالایاجائے گا۔جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کاسوال وجواب سورہ مائدہ کے آخر میں مذکور ہے۔