وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے (١) دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے (٢) اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں؟
مشرکوں کی دوسری مثال: پہلی مثال میں اختیارہونے یا نہ ہونے کاتقابل تھا۔ اس مثال میں صفات کاتقابل پیش کیاگیاہے۔ ایک طرف ایسا آدمی یا کوئی بت، جو گونگا بہرا بھی ہے اور اپاہج بھی جو نہ چل پھر سکے نہ کوئی کام کاج کرسکے نہ کوئی بھلی بات کہہ سکیں نہ کسی چیز پر قدرت رکھے، قول و فعل سے دونوں خالی۔ گونگے بہرے کو اس کامالک کوئی کام کرنے کوکہے بھی تو وہ کبھی صحیح کام نہ کرسکے اُلٹا اسے بگاڑ کر رکھ دے اور جہاں کہیں جائے مالک کو اس کے متعلق شکایات ہی سننا پڑیں اور وہ ہر لحاظ سے اپنے مالک پر بوجھ بنارہے اور دوسری طرف وہ جو عدل کا حکم کرتاہے خود بھی راہ راست پر ہو تو کیایہ دونوں قول و فعل کے اعتبار سے برابر ہوسکتے ہیں۔ شان نزول: کہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وہ غلام جس پر آپ خرچ کرتے تھے، جو آ پ کو تکلیف پہنچاتارہتا تھا اور آپ نے اُسے کام کاج سے آزاد کر رکھا تھا۔ پھر بھی یہ اسلام سے چڑتا تھا، منکر تھا اور آپ کو صدقہ کرنے اور نیکیاں کرنے سے روکتاتھا۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر)