سورة النحل - آیت 8

وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

گھوڑوں کو، خچروں کو گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وہ باعث زینت بھی ہیں۔ (١) اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں (٢)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی ان جانوروں کی پیدائش کااصل مقصد تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم یہ زینت کابھی باعث ہیں چونکہ انھیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا۔ اس پر بعض فقہاء نے استدلال کیا کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح خچر اور گدھا۔ علاوہ ازیں کھانے والے جانوروں کا پہلے ذکر آچکاہے ۔ اس لیے یہ صرف سواری کے لیے ہیں۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ ایک صحیح حدیث میں گھوڑے کی حلت ثابت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کاگوشت کھانے کی ا جازت دی ہے۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں خیبر اور مدینہ میں گھوڑا ذبح کرکے اس کاگوشت پکایا اور کھایااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔ (بخاری: ۵۵۲۰۔ مسلم: ۱۹۴۲) اسی لیے جمہور علماء سلف و خلف کی اکثریت گھوڑے کی حلت کی قائل ہے۔ ( ابن کثیر ) یہاں گھوڑے کاذکر محض سواری کے ضمن میں اس لیے کیاگیاہے کہ اس کا غالب ترین استعمال اسی مقصد کے لیے ہے ۔ وہ ساری دنیامیں ہمیشہ گراں اور اتنا قیمتی ہواکرتاہے کہ خوراک کے طور پر اس کااستعمال بہت ہی نادر ہے ۔ بٹیر،بکری کی طرح اس کو ذبح نہیں کیاجاتا لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ اس کو بلادلیل حرام ٹھہرایا جائے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ ایسی چیزیں پیداکرے گا جس کا فی الحال تم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بے آب و گیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا فرماتا رہتاہے۔ جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آجاتی ہیں جو اللہ کے دیے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں سے مختلف انداز کی چیزیں تیار کرتاہے۔ مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جو مستقبل میں متوقع ہیں۔