كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
تم پر فرض کردیا گیا کہ جب تم میں سے کوئی مرنے لگے اور مال چھوڑ جاتا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے (١) پرہیزگاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے حق دار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے۔ اب کوئی وصیت نہیں ہوگی۔‘‘ (ابوداؤد: ۲۸۷۲) جب تک وراثت کا قانون نہیں تھا اس وقت تک وصیت کرنے کا حق تھا۔ میراث كا قانون آنے کے بعد صرف كل مال كا تہائی حصہ غیر وارث کو دیا جاسکتا ہے: (۱) وارثوں کے حصے میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔ (۲) کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوسکتی ۔ (۳) البتہ تہائی حصہ میں وصیت ہوسکتی ہے۔ اس میں فلاحی اداروں كو دینے ، صدقہ جاریہ كرنے اور کسی کی مدد كرنے كی گنجائش ہے۔ اپنی آخرت کی جواب دہی کے لیے وصیت کردینی چاہیے۔ انسان لمبی زندگی کی اُمید اور نا سمجھی کی وجہ سے وصیت کو اہمیت نہیں دیتا وارثوں کے لیے نہ چھوڑنا، ان کو غنی نہ کرنے والا جہنمی ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے کو وصیت کرنی چاہیے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے مسلمانوں پر حق ہے کہ جو اس کے پاس ہے اس کو دو راتیں بھی نہیں گزارنی چاہئیں کہ وہ وصیت نہ کرے۔ (بخاری: ۲۷۳۸)