رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد (١) اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں (٢) پس تو کچھ لوگوں (٣) کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما (٤) تاکہ یہ شکر گزاری کریں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی مناجات میں فرماتے ہیں کہ الٰہی تو میرے ارادے اور مقصود کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ میری چاہت ہے کہ یہاں کے رہنے والے تیری رضا کے طالب اور فقط تیری طرف رجوع کریں ۔ تیرا احسان ہے کہ بڑھاپے میں تونے مجھے اولاد عطا فرمائی اور ایک پر ایک بچہ دیا۔ میں نے مانگا تو نے دیا بس تیرا شکر ہے۔ میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو یہاں چھوڑے جارہاہوں کہ وہ نماز قائم کریں۔ عبادات میں صرف نماز کاذکر کیا جس سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کو ان کی طرف مائل کردے سے مراد مسلمان ہیں چنانچہ دیکھ لیجیے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں ۔ حج کے علاوہ بھی یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتاہے ۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اَفْئِدَۃَ النَّاسِ (لوگوں کے دل) کہتے تو عیسائی، یہودی،مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے ۔ مِنَ النَّاسِ کے ’’ مِنْ‘‘ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کردیا۔ (ابن کثیر)۔ انھیں کھانے کو پھل مہیا فرما:اس دعا کی تاثیر بھی دیکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بے آب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھل دار درخت نہیں،دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں اور حج کے موقعہ پر بھی جبکہ لاکھوں افراد مزید وہاں پہنچ جاتے ہیں پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ کہاجاتاہے کہ یہ دعا (کہ میری دعا کامقصد تو بخوبی جانتاہے اس شہر والوں کے لیے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے ۔ تو تو ہر چیز کی حقیقت کو بخوبی جانتاہے۔ آسمان وزمین کی کوئی چیز تجھ سے مخفی نہیں ) خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی گئی جبکہ (امن والا شہر ) پہلی دعا اس وقت مانگی جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے۔ (ابن کثیر)