سورة ابراھیم - آیت 32

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمانوں سے بارش برسا کر اس کے ذریعے تمہاری روزی کے پھل نکالے ہیں اور کشتیوں کو تمہارے بس میں کردیا کہ دریاؤں میں اس کے حکم سے چلیں پھریں۔ اسی نے ندیاں اور نہریں تمہارے اختیار میں کردی ہیں (١)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی نصیحتوں کی ناشکری : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اور بعد میں آنے والی دو آیتوں ۳۳،۳۴میں بندوں پر اپنے احسانات کاذکر کیا جن کے بغیر ان کی زندگی ممکن ہی نہ تھی ۔ مثلاً زمین و آسمان پیداکیے۔ زمین اس کائنات میں بنی نوع انسان کامسکن ہے پھر زمین و آسمان میں ہواؤں اور بادلوں کانظام جاری کیا۔ آسمان سے بارش برسا کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں ۔ جن میں لذت اور قوت کے لیے میوے اور پھل بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے، فوائد اور خشبو بھی مختلف، کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگادیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کردیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔ ہمیشہ چلتے پھرتے سورج اور چاندکو جو کبھی نہیں تھکتے تمہارے فائدے کے کاموں میں لگادیا۔ سورج کام کاج کے لیے روشنی اور کھیتوں کو پکنے کے لیے حرارت مہیا کرتاہے، چاند رات کو روشنی مہیا کرتاہے، پھر سورج سے دن رات پیداہوتے ہیں، ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں کبھی دنوں کو بڑے کردیتاہے کبھی راتوں کو بڑھادیتاہے ۔ ہر چیز اپنے کام میں سرجھکائے مشغول ہے ۔ وہ اللہ عزیز و غفار ہے۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لیے مہیار کردی ہیں ۔ تم جن جن چیزوں کے محتاج تھے اس نے سب کچھ تمہیں دے دیں ہیں مانگنے پر بھی وہ دیتاہے اور بن مانگے بھی اس کاہاتھ نہیں رکتا۔ تم خدا کی نعمتوں کاشکریہ تو کیا کرو گے تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ۔ پھر انسان نے ان نعمتوں کاکیا جواب دیا۔ بعض لوگوں نے تو اس کی ذات سے ہی انکار کردیا ۔ ان میں سے بھی اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے جو نعمتیں تو اللہ کی استعمال کرتے رہے اور حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے دوسروں کو پکارتے رہے ۔ اس سے بڑھ کر کوئی بے انصافی اور احسان نا شناسی کی بات ہوسکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ: ’’الٰہی تیرے لیے ہی حمد وثنا سزا وار ہے۔ ہماری ثنائیں ناکافی ہیں پوری اور بے پروا کرنے والی نہیں الٰہی تو معاف فرما۔ (بخاری: ۵۴۵۸) ایک اثر میں حضرت داؤد علیہ السلام کا قول نقل کیاگیاہے کہ انہوں نے کہا: ’’اے رب میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں ؟ جبکہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اے داؤد! اب تو نے میرا شکر ادا کردیا جبکہ تو نے یہ اعتراف کرلیا کہ یااللہ میں تیری نعمتوں کاشکر ادا کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر) اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتاہے بالخصوص کافر جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔