وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ
اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے (١) یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میرے سزا دینے کے وعدہ سے خوف زدہ رہیں۔ (٢)
اور تم زمین کے مالک بنو گے اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہوں گے ۔ ﴿كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ﴾ (المجادلہ: ۲۱) ’’اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ بے شک میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے یقیناً اللہ تعالیٰ زور آور اور غالب ہے۔‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۰۵) ’’ہم نے لکھ دیا زبور میں پند و نصیحت کے بعد کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے ۔‘‘ چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو بادل نخواستہ مکہ سے نکلنا پڑا ۔ لیکن چند سالوں کے بعد ہی آپ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالنے والے ظالم مشرکین سرجھکائے کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق عظیم کامظاہرہ کرتے ہوئے ’’ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ‘‘ کہہ کر سب کو معاف فرمادیا۔ ’’ صَلَوَا تُ اللَّہِ وَ سَلامَہٗ عَلَیْہِ‘‘ جیسے رب تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى ۔ فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى﴾ (النازعات: ۴۰۔ ۴۱) ’’جو اپنے رب کے سامنے کھڑاہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقیناً جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ﴾ (الرحمن: ۴۶) ’’اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑاہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘