قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے (١) اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو (٢) تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں (٣) اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو (٤)۔
اللہ کے بارے میں شک: مشرکین مکہ ہوں یا پہلی قوموں کے یا موجودہ دور کے سب اس بات کے قائل ضرور ہوتے ہیں کہ زمین و آسمان اور ساری کائنات کو پیداکرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ۔ اس بات کو بنیاد بنا کر انبیاء مشرکوں سے یہ سوال کرتے آئے ہیں کہ جب تمام موجودات کا خالق و مالک اللہ ہے تو اس کامطلب یہ کہ تمام اختیار و تصرف بھی اللہ ہی کے پاس ہے اور وہ تمہیں ایمان وتوحید کی دعوت بھی اس لیے دے رہاہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کردے اور اگر تم اس کی دعوت پر ایمان نہ لاؤ گے تو کچھ مدت تو تمہیں مہلت دے گا تاکہ تم اپنی اصلاح کرلو ۔ تم ہمارے جیسے انسان ہو۔ انبیاء کی دعوت پر مشرکوں کے جواب بھی ایک جیسے رہے مثلاً کہ تم ہمارے جیسے ہی ایک انسان ہو۔ ہمارے طرح کھاتے پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، چلتے پھرتے ہو، بھوک پیاس، گرمی سردی، دکھ، بیماری تمہیں بھی لگتی ہے اور بشری کمزوری تم میں بھی ہماری طرح موجود ہے پھر ہم کیسے مان لیں کہ تمہارے پاس فرشتے آتے ہیں ہم کلام ہوتے اور تم اللہ کے پیغمبر ہو ۔ دوسرا جواب ان کا یہ ہوتاہے کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا کر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہو تیسرا جواب یہ رہا ہے کہ جب تک تم کوئی حسی معجزہ نہ دکھا دو یا کوئی ایسی دلیل پیش کرو جس سے ہمیں تمہاری نبوت کی صداقت کایقین حاصل ہوجائے ۔