أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہارے پاس تم سے پہلے کے لوگوں کی خبریں نہیں آئیں؟ یعنی قوم نوح کی اور عاد و ثمود کی اور ان کے بعد والوں کی جنہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ان کے رسول معجزے لائے، لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہ میں دبا لیے (١) اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ تمہیں دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمیں تو اس میں بڑا بھاری شبہ (٢) ہے۔
پچھلی آیت میں موسیٰ علیہ السلام کاخطاب ختم ہوا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا مشرکین مکہ کو خطاب شروع ہوتاہے اور قریش مکہ سے صرف ان اقوام کاذکر کیاگیاجو ان کے آس پاس تھیں یا جن کے حالات کسی نہ کسی ذریعہ سے ان تک پہنچ سکتے تھے ۔ مثلاً قوم نوح علیہ السلام ، قوم عاد علیہ السلام ، قوم ثمود علیہ السلام ، قوم فرعون، قوم مدین وغیرہ وغیرہ اور بہت سی اُمتیں ایسی بھی گزری ہیں جن کاعلم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، اور ان پر بھی انکار حق کی بناء پر عذاب آیاتھا۔ ہاتھ مونہوں میں رکھ لیے: یہ محاورہ ہے اور اس سے مراد ایسا انکار ہوتا ہے جس میں تعجب بھی شامل ہو جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہواتھا اس سے وہ باز رہے۔ (بخاری) مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کیے ہیں جیسے (۱) مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ مونہوں پر رکھ لیے اور کہاکہ ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں ۔ (۲)۔انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کرکے کہاکہ خاموش رہو اور جو یہ پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو۔ (۳)۔ انہوں نے اپنے ہاتھ مونہوں پر استہزا اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جیسے کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتاہے ۔ (۴)۔انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو۔ (۵)۔ بطور غیظ و غضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت قرآن میں ہے۔ ارشاد ہے: ﴿عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ﴾ (آل عمران: ۱۱۹) ’’وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ و غضب سے کاٹتے ہیں۔‘‘