الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں (١) ان کے پروردگار کے حکم (٢) سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف۔
ہدایت اور اللہ کااذن: آیت میں روشنی یا نور کے مقابلہ میں تاریکی نہیں بلکہ تاریکیاں فرمایاہے اس لیے کہ صراط مستقیم صر ف ایک ہی ہوسکتی ہے اور اسی صراط مستقیم کو روشنی سے تعبیر فرمایا جبکہ باطل کی راہیں لا تعداد ہوسکتی ہیں اور یہ سب گمراہی کے راستے ہیں اس لیے انھیں تاریکیوں سے تعبیر کیاگیا۔ گویا اس کتاب یعنی قرآن کریم کو اُتارنے کا ہمارامقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے، لوگوں کو باطل کی تمام راہوں سے ہٹا کر صراط مستقیم پر لائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰى عَبْدِهٖ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ (الحدید: ۹) ’’وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرمائی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاۙ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷) ’’اللہ ایمان داروں کا دوست ہے۔ وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔‘‘ پیغمبر کا کام ہدایت کاراستہ دکھاناہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کرلیتاہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتاہے۔ اگر اس کی مشیت نہ ہوتو پیغمبر کتنا بھی وعظ ونصیحت کرلے لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس کی کئی مثالیں سابقہ انبیاء کی موجودہیں ۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابوطالب کو مسلمان نہ کرسکے۔ قابل حمداللہ تعالیٰ ہے: یعنی جو اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔