سورة البقرة - آیت 168

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

حلال سے مراد: (۱)ہر وہ چیز جسے شریعت نے حرام قرار نہیں دیا۔ (۲) جسے اپنے عمل سے انسان حرام بنالے ۔ مثلاً چوری کی مرغی۔ سود اور ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال۔ پاکیزہ سے مراد: صاف ستھری چیزیں ہیں جو گندی سڑی۔ باسی اور متعفن نہ ہوگئی ہوں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا شرک ہے۔ جسے ہندو گاؤ ماتا کو مقدس سمجھتا ہے۔ تقدیس و احترام: تو صرف اللہ کے لیے ہے۔ اللہ ہی کو قربت اور اُمید کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ حلال مال سے صدقہ کرنا چاہیے جس طرح حلال کے اثرات ہیں اسی طرح حرام کے بھی اثرات ہیں حرام سے نیکی اور بُرائی کی تمیز اٹھ جاتی ہے توہم پرستی اور بے حیائی کا راستہ کھلتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر: ۶) ’’شیطان بیشک تمہارا دشمن ہے سو تم اس کو اپنا دشمن سمجھتے رہو۔‘‘ کسب حلال اور اس کی اہمیت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(اے لوگو پاک مال کھاؤ) اے لوگو اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک مال قبول کرتا ہے۔ فرمایا جنت میں وہ گوشت داخل نہ ہوگا، جس کی پرورش حرام سے کی گئی ہو۔ جس نے حرام کھایا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔ اس کی دعا قبول نہ ہوگی جس کا کھانا حرام پینا حرام۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱۵)