سورة الرعد - آیت 14

لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اسی کو پکارنا حق ہے (١) جو لوگ اوروں کو اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان (کی پکار) کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے مگر جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے منہ میں پڑجائے حالانکہ وہ پانی اس کے منہ میں پہنچنے والا نہیں (٢) ان منکروں کی جتنی پکار ہے سب گمراہی میں ہے (٣)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دعوت حق: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اللہ کے لیے دعوت حق ہے: اس سے مراد توحید ہے خوف اور اُمیدکے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ مشرکین جو دوسرے معبودوں کو پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا پانی دیکھ کر ہاتھ پھیلاتے ہوئے اسے پکارے کہ آؤ میری پیاس بجھاؤ۔ ظاہر ہے کہ نہ تو پانی پیاسے کی پکار سن سکتا ہے نہ اس کے پاس آنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اسی طرح معبود ان باطل کو ہزار بار بھی پکارا جائے تو وہ کچھ سن ہی نہیں سکتے وہ تو ایسے بے بس ومجبورِ محض ہیں کہ دعا قبول کرنے کی قدرت ہی نہیں رکھتے اب وہ خود ہی سوچ لیں کہ انھیں پکارنے کا کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔