سورة الرعد - آیت 12

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ اللہ ہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک ڈرانے اور امید دلانے کے لئے دکھاتا ہے (١) اور بھاری بادلوں کو پیدا کرتا ہے (٢)۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بجلی اور بادل: بجلی بھی اللہ کے حکم اور پانی بھی وہی بوجھل بادلوں کو پیدا کرتا ہے ان بادلوں کو ہوا اپنے دوش پر اُٹھائے پھرتی ہے۔ یہ پانی سے بھرے ہوئے بادل کبھی تہ بہ تہ بنتے جاتے ہیں۔ اس پانی میں کہربائی قوت موجود ہوتی ہے۔ کسی میں مثبت بجلی ہوتی ہے کسی میں منفی جب یہ بادل ملتے ہیں تو بجلی کے جذب سے زبردست دھماکہ اور آتشیں شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ آتشیں شعلہ کو برق یعنی چمکنے والی بجلی اور دھماکہ کو رعد یعنی کڑک کہتے ہیں۔ لہٰذا جب انسان بجلی دیکھتا ہے تو اسے اُمید ہوتی ہے کہ باران رحمت برسے گی اور خوف یہ ہوتا ہے کہ یہ مہیب کڑک اسے بہرا نہ کر دے۔ اس لیے انسان اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔اور یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں بجلی گر کر تباہی کا باعث نہ بن جائے یہ توجیہ ماہرین طبیعات اور سائنس دانوں کی ہے۔ اسلامی عقیدہ کی رو سے رعد اور برق طبعی قوانین کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ کائنات کے انتظام پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ وہی بادلوں کا ہانکتا اور چلاتا ہے اور اس طرف ہانکتا ہے جدھر اللہ کا حکم ہو۔ بجلی بھی صرف وہاں گرتی ہے جہاں اس فرشتہ کو اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ اور اللہ کو اس کا تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ کڑک حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے: یعنی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے (جیسا کہ بنی اسرائیل۴۴ میں ہے) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طو رپر فرما دیا کہ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور غلام اور مامور ہیں اور کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور یہ عین بندگی اور غلامی ہے۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے۔ نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑاکا نہیں گرتا۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے۔ اسی لیے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی۔ (المعجم الکبیر: ۲۰۱۱) اللہ کی تدبیر بڑی سخت ہے: یعنی اللہ بڑی قوت والا، مواخذہ کرنے والا ہے۔ تدبیر کرنے والا ہے۔ یہ لوگ کہیں ا سکی ذات میں جھگڑا کرتے ہیں کہ آیا وہ موجود بھی ہے یا نہیں، کبھی اس کی قدرتوں میں جھگڑا کرتے ہیں جیسے کوئی کہہ دے کہ یہ بادل، بارش، برق، رعد تو محض طبیعی اسباب کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اس میں اللہ کی قدرت کہاں سے آگئی۔ یا اللہ کا کسی بندے پر کلام الٰہی نازل کرنے اور اسے نبی بنانے کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو ایسے لوگوں کو بجلی گرا کر ہلاک کر دے۔ بعض مفسرین نے بعض روایات نقل کی ہیں۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بجلی کثرت سے گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آکر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری۔ وہ کہیں گے کہ فلاں فلاں پر۔‘‘ (مسند احمد: ۳/ ۶۵)