سورة الرعد - آیت 3

وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اسی نے زمین پھیلا کر بچھا دی ہے اور اس میں پہاڑ اور نہریں پیدا کردی ہیں (١) اور اس میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیدا کردیئے (٢) وہ رات کو دن سے چھپا دیتا ہے۔ یقیناً غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس سے پہلی آیت میں نظام کائنات کو یوم آخرت پر دلیل کے طور پر پیش کیا تھا۔ اب ارضی آیات (نشانیوں) سے یوم آخرت پر دلائل دیے جا رہے ہیں۔ یعنی اللہ نے زمین کو طول و عرض میں پھیلایا۔ اس کے مخصوص مقامات پر پہاڑ گاڑ دیے۔ پھر ان پہاڑوں سے دریا اور نہریں جاری کیں، پھر اس پانی سے ہر طرح کی نباتات پیدا فرمائیں اور ہر طرح کے پھلوں میں نر اور مادہ پیدا کر دیے۔ پھر پھلوں اور نباتات کے بار آور ہونے کے لیے دھوپ کی بھی ضرورت تھی او رٹھنڈک کی بھی۔ لہٰذا اللہ نے دن اور رات پیدا کیے ان تمام باتوں میں ایک خاص قسم کا نظم، اعتدال اور حکمت پائی جاتی ہے۔ جس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کا خالق ایک ہی مدبر ہستی ہوسکتی ہے۔ اگر پہاڑوں، پھلوں، نباتات کا دیوتا کوئی اور پانی اور بارش کا دیوتا کوئی اور ہوتا تو ان تمام اشیاء میں ایسی مناسبت اور ہم آہنگی ناممکن تھی۔