فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا اسی وقت پھر بینا ہوگئے (١) کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (٢)۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی کی واپسی: یہ خوشخبری دینے والا بڑا بیٹا یہودا ہی تھا جس نے یوسف علیہ السلام کو قتل کرنے سے بھائیوں کو روکا تھا۔ یہودا ہی مصر میں رہ گیا تھا کہ باپ کو جا کر کیا منہ دکھاؤں گا۔ یہودا ہی قافلہ سے پہلے قمیص لیے باپ کے پاس پہنچ گیا اور انھیں یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے مل جانے کی خوش خبری سنائی۔ پھر قمیص آپ علیہ السلام کے چہرے پر ڈالی تو دفعتاً آپ کی بینائی لوٹ آئی۔پھر اسی نے بتایا کہ میرے باقی بھائی پہنچ رہے ہیں نیز یوسف علیہ السلام نے ہم سب گھر والوں کو اپنے پاس بلایا ہے۔ اور اب ہم اسی غرض سے یہاں آئے ہیں۔ اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے سب گھر والوں سے کہا کہ اب تم حقیقت کو جان ہی گئے ہو گے جو کچھ میں کہتا تھا درست تھا۔ میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جان سکتے۔ ان باتوں کاماخذ علم وحی ہی ہو سکتا ہے جو صرف انبیا کو عطا ہوتا ہے یا وہ خواب بھی جسے آپ علیہ السلام اوریوسف علیہ السلام کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔