قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا اے عزیز مصر! (١) اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں (٢)۔
جب یہ واقعہ پیش آگیا تو برادران یوسف علیہ السلام کو فوراً خیال آیا کہ ہم تو اپنے باپ سے پختہ عہد کرکے آئے تھے کہ بنیامین کو ضرور آپ کے پاس لے کر آئیں گے الایہ کہ ہم پر کوئی آفت نہ پڑجائے۔ اب لگے یوسف علیہ السلام کے سامنے منت سماجت کرنے کہ آپ نے ہم پر پہلے بہت احسان کیے ہیں ایک یہ بھی کر دیجیے کہ بنیامین کی بجائے ہم میں سے کوئی ایک اپنے ہاں غلام رکھ لیجیے۔ کیونکہ اس کا باپ بوڑھا بزرگ ہے ا س کی جدائی کا صدمہ برداشت نہ کر سکے گا۔ یوسف علیہ السلام نے جواب دیا: ایسا ظلم ہم کیسے کر سکتے ہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی ناکردہ گناہ کو سزا دینا اور گناہ گار کو چھوڑ دینا صریح ناانصافی او ربد سلوکی ہے۔