قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
انہوں نے کہا اگر اس نے چوری کی (تو کوئی تعجب کی بات نہیں) اس کا بھائی بھی پہلے چوری کرچکا ہے (١) یوسف (علیہ السلام) نے اس بات کو اپنے دل میں رکھ لیا اور ان کے سامنے بالکل ظاہر نہ کیا۔ کہا کہ تم بدتر جگہ میں ہو (٢) اور جو تم بیان کرتے ہو اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے۔
سیدنا یوسف پر چوری کا الزام: چند لمحے پیشتر برادران یوسف یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم لوگ شریف زادے ہیں چور یا فساد کرنے والے نہیں پھر اسی مقام پر بنیامین پر چوری کے الزام کو درست تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے بڑے بھائی یوسف علیہ السلام پر چوری کا الزام جڑ دیا۔ اس مقام پر بھی سیدنا یوسف علیہ السلام نے پیغمبرانہ صبر و تحمل سے کام لیا۔ البتہ ان کے دل میں یہ خیال ضرور آیا کہ یہ اخلاقی لحاظ سے کس قدر گر چکے ہیں۔ اپنے آپ کو تو باکردار بااخلاق باور کراتے ہیں اورمحض حسد و عناد کی بنا پر یوسف علیہ السلام اور بنیامین کو چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔