فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
پھر جب انھیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ (١) رکھوا دیا پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو! (٢) تم لوگ تو چور ہو (٣)۔
شاہ مصر کے پیالہ کی چوری: سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے ہاں روک لینے کی یہ تدبیر سوچی کہ اس کے سامان میں اپنا مرصَّع پیالہ رکھ دیااور اس کی خبر اپنے بھائی کو بھی دے دی تاکہ وہ کسی موقعہ پر گھبراہٹ کا شکار نہ ہوجائے۔ جب یہ لوگ سامان لے کر شہر مصر سے روانہ ہو کر ذرا آگے نکل آئے تو چند آدمی ان کے پیچھے تیزی سے آ رہے تھے ان میں سے ایک نے پکارا اور کہا کہ ’’ذرا ٹھہرو تم تو چور معلوم ہوتے ہو۔‘‘ برادران یوسف علیہ السلام نے پوچھا کہ کہ تمھارا کیا سامان چوری ہوا ہے۔ ان میں سے ایک شخص بوالا کہ بادشاہ کا پانی پینے کا مرصع پیالہ گم ہو گیا ہے۔ اس کی ہر جگہ تلاش کی نہیں ملا۔ ہم اسی تلاش میں نکلے ہیں جو شخص یہ پیالہ تلاش کرکے بادشاہ کے پیش کرے گا۔ اُسے ایک بار شتر غلہ انعام دیا جائے گا اور میں اس کا ضامن ہوں۔